جانے کیا بات ہے ہنستے ہوئی ڈر جاتے ہیں
چلتے چلتے ہوئے رستے میں ٹھہر جاتے ہیں
مارنے کے لیے ہتھیار ضروری تو نہیں
ہم تو احساس کی شدت سے ہی مر جاتے ہیں
نام کے اپنوں نے تا عمر کیا ہے رسوا
اب تو ڈرتے ہوئے ہم اپنے بھی گھر جاتے ہیں
یہ الگ بات کہ ہم خود ہی فراموش کریں
کون کہتا ہے کہ حالات سنور جاتے ہیں
یوں نہ مغرور ہو تو اپنی مسیحائی پر
زخم کی رسم ہے اک روز یہ بھر جاتے ہیں
جھوٹ کا ساتھ نہ دینے کی قسم کھائی تھی
پھر بھی تیرے لیے ہم سچ سے مکر جاتے ہیں
کیا قیامت کا یہ احوال تجھے یاد نہیں
روئی کے گال سے پتھر بھی بکھر جاتے ہیں
لفظ کے کھیل میں ماہر تھے کبھی ہم بھی مگر
اب تو صدیوں یوں ہی خاموش گزر جاتے ہیں
جو دیے شب میں جلے ان کو سنبھالو ممتازؔ
سارے چڑھتے ہوئے سورج تو اتر جاتے ہیں
غزل
جانے کیا بات ہے ہنستے ہوئی ڈر جاتے ہیں
ممتاز ملک