جانے کتنی دیر چلے گی ساتھ مرے چمکیلی دھوپ
آنے والا موسم لائے شاید گیلی گیلی دھوپ
قریہ قریہ کانپ رہا ہے سرد ہوا کے جھونکوں سے
کتنے آنگن گرمائے گی تنہا ایک اکیلی دھوپ
چنچل شوخ ادا کرنیں تو دور دشا تک جا پہنچیں
بیٹھی خود کو کوس رہی ہے آنگن کی شرمیلی دھوپ
عظمت کی مستحکم چوٹی شاید اس کو راس نہ آئی
ہر چوکھٹ کو چھونے نکلی شہرت کی رنگیلی دھوپ
ہم نے اپنی حرص و ہوس کو بخشی اتنی تابانی
اب کی صدی میں شاید پھیلے بستی میں زہریلی دھوپ
غزل
جانے کتنی دیر چلے گی ساتھ مرے چمکیلی دھوپ
یوسف تقی