EN हिंदी
جانے کس سمت کو بھٹکا سایہ | شیح شیری
jaane kis samt ko bhaTka saya

غزل

جانے کس سمت کو بھٹکا سایہ

عابد ودود

;

جانے کس سمت کو بھٹکا سایہ
دھوپ کہنے لگی سایہ! سایہ!

کوئی سرنامہ ہمارا لکھے
رخش پر ہم تو پیادہ سایہ

سر بے مغز کے اوہام تو دیکھ
جسم اپنا ہے پرایا سایہ

یہ عداوت ہے حقارت تو نہیں
ان کی دستار سے روٹھا سایہ

بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا
چھن گیا ہم سے ہمارا سایہ

اب تو اعجاز ہے جینا عابدؔ
سائے کا ہو بھی بھلا کیا سایہ