جانے کس سمت کو بھٹکا سایہ
دھوپ کہنے لگی سایہ! سایہ!
کوئی سرنامہ ہمارا لکھے
رخش پر ہم تو پیادہ سایہ
سر بے مغز کے اوہام تو دیکھ
جسم اپنا ہے پرایا سایہ
یہ عداوت ہے حقارت تو نہیں
ان کی دستار سے روٹھا سایہ
بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا
چھن گیا ہم سے ہمارا سایہ
اب تو اعجاز ہے جینا عابدؔ
سائے کا ہو بھی بھلا کیا سایہ
غزل
جانے کس سمت کو بھٹکا سایہ
عابد ودود