EN हिंदी
جانے کیسے لوگ تھے یاد آئے کم جانے کے بعد | شیح شیری
jaane kaise log the yaad aae kam jaane ke baad

غزل

جانے کیسے لوگ تھے یاد آئے کم جانے کے بعد

جمال اویسی

;

جانے کیسے لوگ تھے یاد آئے کم جانے کے بعد
عیب سارے کھل گئے مرحوم کہلانے کے بعد

چاند کا ہالہ مری آنکھوں کا جالا بن گیا
کچھ نظر آیا نہ پھر تیرے نظر آنے کے بعد

آدمیت کے سبھی پیمانے ہو جاتے ہیں پاش
بھوک ایسی جاگتی ہے پیٹ بھر جانے کے بعد

اس نے اک اک لفظ کا پیسہ کیا مجھ سے وصول
کل کی شب میلاد میں تقریر فرمانے کے بعد

میں نے تا حد نظر دیکھا کوئی مونس نہ تھا
دوپہر کے وقت برقی موج لہرانے کے بعد