جانے کیسے لوگ تھے یاد آئے کم جانے کے بعد
عیب سارے کھل گئے مرحوم کہلانے کے بعد
چاند کا ہالہ مری آنکھوں کا جالا بن گیا
کچھ نظر آیا نہ پھر تیرے نظر آنے کے بعد
آدمیت کے سبھی پیمانے ہو جاتے ہیں پاش
بھوک ایسی جاگتی ہے پیٹ بھر جانے کے بعد
اس نے اک اک لفظ کا پیسہ کیا مجھ سے وصول
کل کی شب میلاد میں تقریر فرمانے کے بعد
میں نے تا حد نظر دیکھا کوئی مونس نہ تھا
دوپہر کے وقت برقی موج لہرانے کے بعد
غزل
جانے کیسے لوگ تھے یاد آئے کم جانے کے بعد
جمال اویسی