EN हिंदी
جانے کیسے ہوں گے آنسو بہتے ہیں تو بہنے دو | شیح شیری
jaane kaise honge aansu bahte hain to bahne do

غزل

جانے کیسے ہوں گے آنسو بہتے ہیں تو بہنے دو

سلیم رضا ریوا

;

جانے کیسے ہوں گے آنسو بہتے ہیں تو بہنے دو
بھولی بسری بات پرانی کہتے ہیں تو کہنے دو

ہم بنجاروں کو نا کوئی باندھ سکا زنجیروں میں
آج یہاں کل وہاں بھٹکتے رہتے ہیں تو رہنے دو

مفلس کی تو مجبوری ہے سردی گرمی بارش کیا
روٹی کی خاطر سارے غم سہتے ہیں تو سہنے دو

اپنے سکھ سنگ میرے دکھ کو ساتھ کہاں لے جاؤ گے
الگ الگ وہ اک دوجے سے رہتے ہیں تو رہنے دو

خون غریبوں کا دامن میں اپنے نا لگنے دیں گے
سپنوں کے گر محل ہمارے ڈہتے ہیں تو ڈہنے دو

پیار میں ان کے سدھ بدھ کھو کر اس طرح بے حال ہوئے
لوگ ہمیں عاشق آوارہ کہتے ہیں تو کہنے دو

مست مگن ہم اپنی دھن میں رہتے ہیں دیوانوں سا
جانے کتنے ہم کو پاگل کہتے ہیں تو کہنے دو