EN हिंदी
جانے چلی ہے کیسی ہوا سارے شہر میں | شیح شیری
jaane chali hai kaisi hawa sare shahr mein

غزل

جانے چلی ہے کیسی ہوا سارے شہر میں

محمد یعقوب آسی

;

جانے چلی ہے کیسی ہوا سارے شہر میں
سوچیں ہوئیں سروں سے جدا سارے شہر میں

میری ہر ایک عرض ہے نا معتبر یہاں
اس کا ہر ایک حکم روا سارے شہر میں

سرگوشیاں ہیں اور جھکے سر ہیں خوف ہے
سہمی ہوئی ہے خلق خدا سارے شہر میں

بدلی مری نگاہ کہ چہرے بدل گئے
کوئی بھی معتبر نہ رہا سارے شہر میں

پندار قیصری پہ جو ضرب اک لگی تو پھر
کندھوں پہ کوئی سر نہ رہا سارے شہر میں

خاموش ہو گئے ہیں مرے سارے ہم نوا
زندہ ہے ایک میری صدا سارے شہر میں