EN हिंदी
جانے آیا تھا کیوں مکان سے میں | شیح شیری
jaane aaya tha kyun makan se main

غزل

جانے آیا تھا کیوں مکان سے میں

اظہر عنایتی

;

جانے آیا تھا کیوں مکان سے میں
کیا خریدوں گا اس دکان سے میں

ہو گیا اپنی ہی انا سے ہلاک
دب گیا اپنی ہی چٹان سے میں

ایک رنگین سی بغاوت پر
کٹ گیا سارے خاندان سے میں

روز باتوں کے تیر چھوڑتا ہوں
اپنے اجداد کی کمان سے میں

مانگتا ہوں کبھی لرز کے دعا
کبھی لڑتا ہوں آسمان سے میں

اے مرے دوست تھک نہ جاؤں کہیں
تری آواز کی تکان سے میں

ڈرتا رہتا ہوں خود بھی اظہرؔ خاں
اپنے اندر کے اس پٹھان سے میں