EN हिंदी
جان یہ انتظار کیسا ہے | شیح شیری
jaan ye intizar kaisa hai

غزل

جان یہ انتظار کیسا ہے

پوجا بھاٹیا

;

جان یہ انتظار کیسا ہے
ہجر میں بھی قرار کیسا ہے

تیری باتوں کا زخم ہے اب تک
دیکھ تیرا شکار کیسا ہے

دل کی دھڑکن سنی تو وہ بولے
یہ کھنکتا ستار کیسا ہے

نبض نے لوٹتے ہی پوچھا تھا
سونے دل کا دیار کیسا ہے

میرے آنسو اسے تسلی دیں
مجھ کو یہ اس سے پیار کیسا ہے

مجھ میں ہمت نہیں لگاؤں دل
اور دیکھوں کہ پیار کیسا ہے

روح کے زخم جسم سے ہیں عیاں
پیرہن تار تار کیسا ہے

پھول کے حال سے میں واقف ہوں
تم بتاو کہ خار کیسا ہے

وہ رکھے گا مرا بھرم باقی
اس پہ یہ اعتبار کیسا ہے