جاں تن کا ساتھ دے نہ تو دل ہی وفا کرے
کیا رہ گیا ہے جس کا کوئی تذکرہ کرے
سب دیکھ سن چکا مگر اب بھی سفر میں ہوں
قدموں کو کون راہ گزر سے جدا کرے
آشفتگی کا میری پتہ دے مرا مزار
اک گرد باد روز وہاں سے اٹھا کرے
مدت ہوئی کہ بھول گیا مجھ کو شہر یار
چپ لگ گئی مجھے تو وہ بیچارہ کیا کرے
ترک سفر پہ راہ سے یہ بد دعا ملی
بستر میں تیرے پاؤں کا تلوا جلا کرے
سکتہ سا لگ گیا ہے مرے یار کو سہیلؔ
آنکھیں ہیں اشک بار نہ دل ہی دعا کرے
غزل
جاں تن کا ساتھ دے نہ تو دل ہی وفا کرے
سہیل احمد زیدی