EN हिंदी
جان تک کر دی فدا لیکن صلہ کچھ بھی نہیں | شیح شیری
jaan tak kar di fida lekin sila kuchh bhi nahin

غزل

جان تک کر دی فدا لیکن صلہ کچھ بھی نہیں

انیس دہلوی

;

جان تک کر دی فدا لیکن صلہ کچھ بھی نہیں
آپ کی نظروں میں کیا میری وفا کچھ بھی نہیں

چھین لیں خوشیاں مری آنکھوں سے میری نیند بھی
زندگی تو نے مجھے اب تک دیا کچھ بھی نہیں

سینکڑوں مجھ پر ستم کرتا رہا وہ عمر بھر
پھر بھی میں نے آج تک اس سے کہا کچھ بھی نہیں

دے رہے ہیں گالیاں یا پھر دعائیں مجھ کو آپ
کیا کہوں اب آپ سے میں نے سنا کچھ بھی نہیں

آپ کی باتوں میں آ کر کھو دیا دل کا سکوں
زندگی میں دیکھیے میری بچا کچھ بھی نہیں