جاں سوز غموں کا کہیں اظہار نہیں ہے
زنداں میں بھی زنجیر کی جھنکار نہیں ہے
ہر شخص کے چہرے پہ ہے کچھ ایسی علامت
جیسے وہ کوئی پھول ہے تلوار نہیں ہے
سب گہرے سمندر میں کھڑے سوچ رہے ہیں
ہم میں کوئی سورج کا پرستار نہیں ہے
زخموں کا لہو ہو کہ چراغوں کا اجالا
کوئی بھی مرے شہر میں بیدار نہیں ہے
میں تجھ سے بچھڑ کر یہی سمجھا ہوں کہ دنیا
دیوار تو ہے سایۂ دیوار نہیں ہے
خوش رنگ زلیخاؤں کے بازار میں جاذبؔ
کوئی غم یوسف کا خریدار نہیں ہے
غزل
جاں سوز غموں کا کہیں اظہار نہیں ہے
جاذب قریشی