جاں رہے نوچتے حیات کے دکھ
ذات کے اور کائنات کے دکھ
کچھ بگاڑا نہ وقت نے ان کا
ہیں جواں اب بھی میرے ساتھ کے دکھ
روزمرہ کا بن گئے معمول
روزمرہ معاملات کے دکھ
فتح نے بھی شکست و ریخت ہی دی
جیت سے منسلک تھے مات کے دکھ
رہ گیا اب جنوں ہی کم آمیز
عشق میں تو ہیں بات بات کے دکھ
ہم غریبوں کے روز و شب نہ پوچھ
دن میں بھی جاگتے ہیں رات کے دکھ
ٹوٹنے میں ہی عافیت تھی ربابؔ
جھیلتا کون احتیاط کے دکھ
غزل
جاں رہے نوچتے حیات کے دکھ
ظفر رباب