EN हिंदी
جان نہیں پہچان نہیں ہے | شیح شیری
jaan nahin pahchan nahin hai

غزل

جان نہیں پہچان نہیں ہے

وقار مانوی

;

جان نہیں پہچان نہیں ہے
پھر بھی تو وہ انجان نہیں ہے

ہر غم سہنا اور خوش رہنا
مشکل ہے آسان نہیں ہے

دل میں جو مر جائے وہ ہے ارماں
جو نکلے ارمان نہیں ہے

مجھ کو خوشی یہ ہے کہ خوشی کا
مجھ پہ کوئی احسان نہیں ہے

اب نہ دکھانا تابش جلوہ
اب آنکھوں میں جان نہیں ہے

سب کچھ ہے اس دور ہوس میں
دل کا اطمینان نہیں ہے

اب کے وقارؔ ایسے بچھڑے ہیں
ملنے کا امکان نہیں ہے