جان نہیں پہچان نہیں ہے
پھر بھی تو وہ انجان نہیں ہے
ہر غم سہنا اور خوش رہنا
مشکل ہے آسان نہیں ہے
دل میں جو مر جائے وہ ہے ارماں
جو نکلے ارمان نہیں ہے
مجھ کو خوشی یہ ہے کہ خوشی کا
مجھ پہ کوئی احسان نہیں ہے
اب نہ دکھانا تابش جلوہ
اب آنکھوں میں جان نہیں ہے
سب کچھ ہے اس دور ہوس میں
دل کا اطمینان نہیں ہے
اب کے وقارؔ ایسے بچھڑے ہیں
ملنے کا امکان نہیں ہے
غزل
جان نہیں پہچان نہیں ہے
وقار مانوی