جان لے لے نہ ضبط آہ کہیں
رو لیا کیجے گاہ گاہ کہیں
ابتدائی جو ایک خدشہ تھا
کھل نہ جائے اسی پہ راہ کہیں
ہونے والی ہے یہ فضا رنگین
ابر ہونے لگے سیاہ کہیں
یہ سہولت ہے زندگی کو بہت
ربط ہوتا رہے نباہ کہیں
اور کچھ دیر غم نظر میں رکھ
کیا خبر مل ہی جائے تھاہ کہیں
حیف سر سے گزر گیا پانی
دھونے آئے تھے ہم گناہ کہیں
غزل
جان لے لے نہ ضبط آہ کہیں
بکل دیو