جاں خود شناس ہو تو دعا میں اثر بھی ہے
میں جل رہا ہوں تجھ کو مری کچھ خبر بھی ہے
شہر گلاب میں بھی کوئی ڈھونڈھتا رہا
وہ دھوپ جس میں تیرے بدن کا شجر بھی ہے
وہ عکس ہوں کہ مجھ میں ترے خال و خد نہیں
تو میرا آئنہ بھی ہے آئینہ گر بھی ہے
سوچوں تو زرنگار سے چہرے بھی ساتھ ہیں
دیکھوں تو یہ سفر مرا تنہا سفر بھی ہے
میں بھی ہوں زخم زخم ترے انتظار میں
اک شام رہ گزر مرا ویران گھر بھی ہے
کیا ہے جو کم نظر مجھے پہچانتے نہیں
چہرہ بھی ہے مرا مرے شانوں پہ سر بھی ہے
خوشبو کے پیرہن سے اجالے کے جسم تک
میں ہوں تو پھر سلیقۂ عرض ہنر بھی ہے
غزل
جاں خود شناس ہو تو دعا میں اثر بھی ہے
جاذب قریشی