EN हिंदी
جاں کا دشمن ہے مگر جان سے پیارا بھی ہے | شیح شیری
jaan ka dushman hai magar jaan se pyara bhi hai

غزل

جاں کا دشمن ہے مگر جان سے پیارا بھی ہے

ضیا ضمیر

;

جاں کا دشمن ہے مگر جان سے پیارا بھی ہے
ایسا اس عہد میں اک شخص ہمارا بھی ہے

جاگتی آنکھوں نے دیکھے ہیں ترے خواب اے جاں
اور نیندوں میں ترا نام پکارا بھی ہے

وہ برا وقت کہ جب ساتھ نہ ہو سایہ بھی
ہم نے ہنس ہنس کے کئی بار گزارا بھی ہے

جس نے منجدھار میں چھوڑا اسے معلوم نہیں
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا بھی ہے

مت لٹا دینا زمانے پہ ہی ساری خیرات
منتظر ہاتھ میں کشکول ہمارا بھی ہے

نام سن کر مرا اس لب پہ تبسم ہے ضیاؔ
اور پلکوں پہ اتر آیا ستارہ بھی ہے