جاں کا دشمن ہے مگر جان سے پیارا بھی ہے
ایسا اس عہد میں اک شخص ہمارا بھی ہے
جاگتی آنکھوں نے دیکھے ہیں ترے خواب اے جاں
اور نیندوں میں ترا نام پکارا بھی ہے
وہ برا وقت کہ جب ساتھ نہ ہو سایہ بھی
ہم نے ہنس ہنس کے کئی بار گزارا بھی ہے
جس نے منجدھار میں چھوڑا اسے معلوم نہیں
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا بھی ہے
مت لٹا دینا زمانے پہ ہی ساری خیرات
منتظر ہاتھ میں کشکول ہمارا بھی ہے
نام سن کر مرا اس لب پہ تبسم ہے ضیاؔ
اور پلکوں پہ اتر آیا ستارہ بھی ہے
غزل
جاں کا دشمن ہے مگر جان سے پیارا بھی ہے
ضیا ضمیر