جان ہی جائے تو جائے درد دل
اک یہی ہے اب دوائے درد دل
اب تڑپنے میں مزا ملتا نہیں
ہو چلی جاں آشنائے درد دل
امتحان ضبط ہے منظور آج
جس قدر چاہے ستائے درد دل
بھاگتی ہے دور جس سے موت بھی
وہ بلا ہے یہ بلائے درد دل
رحم کب آیا کسی بے درد کو
ہو چکی جب انتہائے درد دل
کھا کے کچھ سو رہتے ہیں حرماں نصیب
ایک یہ بھی ہے دوائے درد دل
ہم مریضوں کا نہیں ممکن علاج
لا دوا ہیں مبتلائے درد دل
رہتی ہے سینے ہی پر تصویر دوست
ہے یہ تعویذ اک برائے درد دل
روتے روتے بندھ گئی ہچکی حفیظؔ
جب کہا کچھ ماجرائے درد دل

غزل
جان ہی جائے تو جائے درد دل
حفیظ جونپوری