جان بے تاب عجب تیرے ٹھکانے نکلے
بارش سنگ میں سب آئنہ خانے نکلے
سب بڑے زعم سے آئے تھے نئے صورت گر
سب کے دامن سے وہی خواب پرانے نکلے
رات ہر وعدہ و پیمان امر لگتا تھا
صبح کے ساتھ کئی عذر بہانے نکلے
اے کسی آتے ہوئے زندہ زمانے کے خیال
ہم ترے راستے میں پلکیں بچھانے نکلے
کاسۂ درد لیے کب سے کھڑے سوچتے ہیں
دست امکان سے کیا چیز نہ جانے نکلے
حرف انکار سر بزم کہا میں نے ظفرؔ
لاکھ اندیشے مرے دل کو ڈرانے نکلے

غزل
جان بے تاب عجب تیرے ٹھکانے نکلے
ظفر عجمی