جاں دینا بس ایک زیاں کا سودا تھا
راہ طلب میں کس کو یہ اندازہ تھا
آنکھوں میں دیدار کا کاجل ڈالا تھا
آنچل پہ امید کا تارہ ٹانکا تھا
ہاتھوں کی بانکیں چھن چھن چھن ہنستی تھیں
پیروں کی جھانجھن کو غصہ آتا تھا
ہوا سکھی تھی میری، رت ہمجولی تھی
ہم تینوں نے مل کر کیا کیا سوچا تھا
ہر کونے میں اپنے آپ سے باتیں کیں
ہر پہچل پر آئینے میں دیکھا تھا
شام ڈھلے آہٹ کی کرنیں پھوٹی تھیں
سورج ڈوب کے میرے گھر میں نکلا تھا
غزل
جاں دینا بس ایک زیاں کا سودا تھا
زہرا نگاہ