جاں بہ لب ویسے ہی تھے اور ہمیں مار چلا
دھوپ کے ساتھ کہاں سایۂ دیوار چلا
باز گشتوں کے تعاقب سے پریشاں ہو کر
میں بھی آواز کے جنگل میں دھواں دھار چلا
میں نے ہم زاویہ قابو نہیں پایا اب تک
اے تمنا مرے سینے میں نہ تلوار چلا
یہ سفر وہ ہے جہاں سانس کے پر جلتے ہیں
تجھ کو ضد ہے تو پھر اے ہستیٔ بے کار چل آ
چاک دامانی سے پہلے ہی بکھر جائیں گے
یوں شگوفوں میں اگر تذکرۂ خار چلا
گر پڑی ریت کی دیوار تو مایوسی میں
گرد وحشت نہ اڑا خون کی بوچھار چلا
غزل
جاں بہ لب ویسے ہی تھے اور ہمیں مار چلا
مظفر حنفی