EN हिंदी
جاں بہ لب ویسے ہی تھے اور ہمیں مار چلا | شیح شیری
jaan-ba-lab waise hi the aur hamein mar chala

غزل

جاں بہ لب ویسے ہی تھے اور ہمیں مار چلا

مظفر حنفی

;

جاں بہ لب ویسے ہی تھے اور ہمیں مار چلا
دھوپ کے ساتھ کہاں سایۂ دیوار چلا

باز گشتوں کے تعاقب سے پریشاں ہو کر
میں بھی آواز کے جنگل میں دھواں دھار چلا

میں نے ہم زاویہ قابو نہیں پایا اب تک
اے تمنا مرے سینے میں نہ تلوار چلا

یہ سفر وہ ہے جہاں سانس کے پر جلتے ہیں
تجھ کو ضد ہے تو پھر اے ہستیٔ بے کار چل آ

چاک دامانی سے پہلے ہی بکھر جائیں گے
یوں شگوفوں میں اگر تذکرۂ خار چلا

گر پڑی ریت کی دیوار تو مایوسی میں
گرد وحشت نہ اڑا خون کی بوچھار چلا