EN हिंदी
جام نہ رکھ ساقیا شب ہے پڑی اور بھی | شیح شیری
jam na rakh saqiya shab hai paDi aur bhi

غزل

جام نہ رکھ ساقیا شب ہے پڑی اور بھی

نظیر اکبرآبادی

;

جام نہ رکھ ساقیا شب ہے پڑی اور بھی
پھر جہاں کٹ گئے چار گھڑی اور بھی

پہلے ہی ساغر میں تھے ہم تو پڑے لوٹتے
اتنے میں ساقی نے دی اس سے کڑی اور بھی

پلکیں تو چھیدے تھیں دل مارے تھی برچھی نگاہ
ابرو نے اس پر سے ایک تیغ جڑی اور بھی

کچھ تپش دل تھی کچھ سنتے ہی فرقت کا نام
آگ سی ایک آگ پر آن پڑی اور بھی

میری شب وصل کی صبح چلی آتی ہے
روک لے اس دم فلک ایک گھڑی اور بھی

گرچہ ابھر آئے ہیں تن پہ مرے پر میاں
اتنی لگائیں جہاں ایک چھڑی اور بھی

کیا کہوں اس شوخ کی واہ میں خوبی نظیرؔ
سنتے ہی اس بات کے ایک جڑی اور بھی