جاہلوں کو سلام کرنا ہے
اور پھر جھوٹ موٹ ڈرنا ہے
کاش وہ راستے میں مل جائے
مجھ کو منہ پھیر کر گزرنا ہے
پوچھتی ہے صدائے بال و پر
کیا زمیں پر نہیں اترنا ہے
سوچنا کچھ نہیں ہمیں فی الحال
ان سے کوئی بھی بات کرنا ہے
بھوک سے ڈگمگا رہے ہیں پاؤں
اور بازار سے گزرنا ہے
غزل
جاہلوں کو سلام کرنا ہے
فہمی بدایونی