EN हिंदी
جاہلوں کو سلام کرنا ہے | شیح شیری
jahilon ko salam karna hai

غزل

جاہلوں کو سلام کرنا ہے

فہمی بدایونی

;

جاہلوں کو سلام کرنا ہے
اور پھر جھوٹ موٹ ڈرنا ہے

کاش وہ راستے میں مل جائے
مجھ کو منہ پھیر کر گزرنا ہے

پوچھتی ہے صدائے بال و پر
کیا زمیں پر نہیں اترنا ہے

سوچنا کچھ نہیں ہمیں فی الحال
ان سے کوئی بھی بات کرنا ہے

بھوک سے ڈگمگا رہے ہیں پاؤں
اور بازار سے گزرنا ہے