EN हिंदी
جاگتی آنکھوں کو خوابوں کی سزا دے جائے گا | شیح شیری
jagti aaankhon ko KHwabon ki saza de jaega

غزل

جاگتی آنکھوں کو خوابوں کی سزا دے جائے گا

جاوید اکرم فاروقی

;

جاگتی آنکھوں کو خوابوں کی سزا دے جائے گا
پھر پرانا دوست کوئی دکھ نیا دے جائے گا

جانے کب ٹوٹے گا یہ لفظ و معانی کا طلسم
جانے کب وہ گونگے لفظوں کو صدا دے جائے گا

بوڑھی آنکھوں نے سجایا ہے جواں بیٹے کا خواب
کانپتے ہاتھوں میں اک خط ڈاکیہ دے جائے گا

رات دن لپٹا ہے پیروں سے مرے اندھا سفر
اجنبی احساس منزل کا پتا دے جائے گا

مسکراتی زندگی کے خون کا پیاسا عقاب
وقت کے ہاتھوں میں زخمی فاختہ دے جائے گا

جھوٹ اس سے پہلے تو بچوں کے ہونٹوں پر نہ تھا
بھوک کا آسیب ان کو اور کیا دے جائے گا

رات کے آنگن میں سورج کے مسافر کا قیام
پھول سے جسموں کو زخموں کی قبا دے جائے گا

میرے منصف فیصلہ تیرا سر تسلیم خم
جو بھی کچھ ہوگا مقدر کا لکھا دے جائے گا

پھر دلہن بننے سے پہلے مفلسی بیوہ ہوئی
پھر امیر شہر خوابوں کو چتا دے جائے گا