جاگتے میں رات مجھ کو خواب دکھلایا گیا
بن کے شاخ گل مری آنکھوں میں لہرایا گیا
جو مسک جائے ذرا سی ایک نوک حرف سے
کیوں مجھے ایسا لباس جسم پہنایا گیا
اپنے اپنے خوف گھر میں لوگ ہیں سہمے ہوئے
دائرے سے کھینچ کر نقطے کو کیوں لایا گیا
یہ مرا اپنا بدن ہے یا کھنڈر خوابوں کا ہے
جانے کس کے ہاتھ سے ایسا محل ڈھایا گیا
بڑھ چلی تھی موج اپنی حد سے لیکن تھم گئی
اس نے یہ سمجھا تھا کہ پتھر کو پگھلایا گیا
رات اک مینا نے چوما تھا لب ساغر شمیمؔ
بات بس اتنی تھی جس کو خوب پھیلایا گیا
غزل
جاگتے میں رات مجھ کو خواب دکھلایا گیا
سید احمد شمیم