جاگا ہے کچی نیند سے مت چھیڑئیے اسے
کیا جانے کیا جنون میں منہ سے نکل پڑے
ساون کی رت بھی اب کے برس بے خبر گئی
بادل اٹھے تو جانے کہاں پر برس گئے
قد آوری پہ اپنی ہمیں ناز تھا بہت
سورج اگا تو قد سے بھی سائے دراز تھے
مجرم بنے کہ سکہ تھا عہد قدیم کا
بازار لے گئے تو گرفتار ہو گئے
بچپن کی خواہشوں کا گلا گھونٹنا پڑا
جب ہم خلا سے پار ہوئے تو کھنڈر ملے
خلوت کا اس کی بھید کسی پہ کھلے گا کیا
دیواریں بے زبان ہیں گونگے ہیں آئنے
اے سیفؔ ہم بھی یوسف ثانی ہیں آج کل
اندھے کنوئیں سے نکلے تو بازار میں بکے

غزل
جاگا ہے کچی نیند سے مت چھیڑئیے اسے
سیف سہسرامی