جاگ اٹھیں چنگھاڑتی موجیں سفینہ چاہئے
چار جانب موت ہے ہمت سے جینا چاہئے
میز پر اک فائلوں کا ڈھیر ذہنی کرب خوف
آدمی سے کام لینے کا قرینہ چاہئے
آگ برسائی ادھر انسان پر انسان نے
اور حریفوں کو ادھر صحرائے سینا چاہئے
اس بھرے بازار اس بغداد سے گزرا ہوں میں
میں یہاں بھوکا ہوں مجھ کو بھی دفینہ چاہئے
دشمنوں کو ہی نہ کیجے قتل اس تلوار سے
دوستوں کے واسطے بھی دل میں کینہ چاہئے

غزل
جاگ اٹھیں چنگھاڑتی موجیں سفینہ چاہئے
مراتب اختر