جاگ کے میرے ساتھ سمندر راتیں کرتا ہے
جب سب لوگ چلے جائیں تو باتیں کرتا ہے
شام کو دیر سے پہنچوں تو لگتا ہے خفا مجھ سے
مجھ سے بہت برہم ہو ایسی گھاتیں کرتا ہے
میرے سوا شاید اس کا بھی کوئی دوست نہیں
میری اپنی جانے کیا کیا باتیں کرتا ہے
دل غم سے بوجھل ہو تو دیکھو پھر چھیڑیں اس کی
چھینٹے منہ پہ مار کے کیا برساتیں کرتا ہے
اور بھی گہری ہو جاتی ہے اس کی سرگوشی
مجھ سے کسی کی آنکھوں کی جب باتیں کرتا ہے
مجھ کو موتیوں سے کیا لینا زیبؔ سمندر بھی
جانے کیا مرے اشکوں کی سوغاتیں کرتا ہے
غزل
جاگ کے میرے ساتھ سمندر راتیں کرتا ہے
زیب غوری