EN हिंदी
جائیں کہاں ہم آپ کا ارماں لیے ہوئے | شیح شیری
jaen kahan hum aap ka arman liye hue

غزل

جائیں کہاں ہم آپ کا ارماں لیے ہوئے

امجد نجمی

;

جائیں کہاں ہم آپ کا ارماں لیے ہوئے
درد فراق و کاوش ہجراں لیے ہوئے

ان آنسوؤں کی تم کو حقیقت بتائیں کیا
آنکھیں ہیں میری شوکت طوفاں لیے ہوئے

رنج فراق بھی ہے نشاط وصال بھی
ہوں ساتھ ساتھ درد کے درماں لیے ہوئے

آساں نہیں وصال تو دشوار بھی نہیں
مشکل میں ہوں یہ مشکل آساں لیے ہوئے

رحمت نے لوٹ لوٹ لیا مجھ کو حشر میں
پہنچا جو میں بضاعت عصیاں لیے ہوئے

یا رب ہو خیر آمد فصل بہار کی
دست جنوں ہے چاک گریباں لیے ہوئے

نجمیؔ ہماری چشم بصیرت کے واسطے
ہے گل کی پنکھڑی بھی گلستاں لیے ہوئے