EN हिंदी
جادۂ زیست میں تنویر سحر آنے تک | شیح شیری
jada-e-zist mein tanwir-e-sahar aane tak

غزل

جادۂ زیست میں تنویر سحر آنے تک

جمنا پرشاد راہیؔ

;

جادۂ زیست میں تنویر سحر آنے تک
خواب بنتے رہو تعبیر نظر آنے تک

لوٹ بھی آیا تو صدیوں کی تھکن لائے گا
صبح کا بھولا ہوا شام کو گھر آنے تک

زندگی پیاس سے مانوس نہ ہو جائے کہیں
وقت کے دشت میں اک لمحۂ تر آنے تک

ظلمتیں چھین نہ لیں ہم سے مقدس چہرے
شمع مصلوب ترے شعلہ بسر آنے تک

ہم گناہوں کے پجاری بھی تو بن سکتے ہیں
حاصل جذبۂ تقدیس نظر آنے تک

صبح کی دھوپ دھندلکوں میں بدل جاتی ہے
شاخ افلاس پہ زرتاب ثمر آنے تک

چشم بے خواب کی صورت ہے سمندر میں صدف
ابر نیساں سے کوئی شعلۂ تر آنے تک