جا کے سورج سے ملا دن میں بھی گھر سے نکلا
بعد مدت میں چراغوں کے اثر سے نکلا
اب تو مل جاتی ہیں ہر موڑ پہ آنکھیں اچھی
تیری آنکھوں کا وہ کانٹا بھی نظر سے نکلا
کتنی کم گو تھی مری جان سخن وہ خوشبو
بات کرنے کا بہانہ بھی اگر سے نکلا
جانے کس کس کو دیے میرے ہزاروں دل تھے
یہ خزانہ مرے سینے کے کھنڈر سے نکلا
مجھ کو تو گردش دوراں نے دیا ہے لہجہ
میرا مطلب تو اسی زیر و زبر سے نکلا
وہ بھی محفل میں چلی آئی ہے پیچھے پیچھے
میں تو گھر سے اسی تنہائی کے ڈر سے نکلا
جس کی چھاؤں میں سکوں پائیں سخن کے پنچھی
پیڑ وہ میری ہی محنت کے ثمر سے نکلا
مجھ کو لے ڈوبی فراوانی یہ سیم و زر کی
سارا محنت کا مزا لقمۂ تر سے نکلا
ہو نہ ہو اس میں کوئی راز چھپا ہے اخترؔ
کام اکثر تو خدا کا بھی بشر سے نکلا
غزل
جا کے سورج سے ملا دن میں بھی گھر سے نکلا
جنید اختر