جا کے پھر لوٹ جو آئے وہ زمانہ کیسا
تیری آنکھوں نے یہ چھیڑا ہے فسانہ کیسا
آنکھ سرشار تمنا ہے تو وعدہ کر لے
چال کہتی ہے کہ اب لوٹ کے آنا کیسا
مجھ سے کہتا ہے کہ سائے کی طرح ساتھ ہیں ہم
یوں نہ ملنے کا نکالا ہے بہانہ کیسا
اس کا شکوہ تو نہیں ہے نہ ملے تم ہم سے
رنج اس کا ہے کہ تم نے ہمیں جانا کیسا
خود بھی سوچا تھا بہت اس نے بھی پوچھا تھا بہت
حال جب خود ہی نہ سمجھے تو سنانا کیسا
تجھ کو پانے کی ہوس تھی سو کسے تھا معلوم
اپنے ہی آپ کو کھو بیٹھیں گے پانا کیسا
غزل
جا کے پھر لوٹ جو آئے وہ زمانہ کیسا
سلیم احمد