EN हिंदी
جا کے پھر لوٹ جو آئے وہ زمانہ کیسا | شیح شیری
ja ke phir lauT jo aae wo zamana kaisa

غزل

جا کے پھر لوٹ جو آئے وہ زمانہ کیسا

سلیم احمد

;

جا کے پھر لوٹ جو آئے وہ زمانہ کیسا
تیری آنکھوں نے یہ چھیڑا ہے فسانہ کیسا

آنکھ سرشار تمنا ہے تو وعدہ کر لے
چال کہتی ہے کہ اب لوٹ کے آنا کیسا

مجھ سے کہتا ہے کہ سائے کی طرح ساتھ ہیں ہم
یوں نہ ملنے کا نکالا ہے بہانہ کیسا

اس کا شکوہ تو نہیں ہے نہ ملے تم ہم سے
رنج اس کا ہے کہ تم نے ہمیں جانا کیسا

خود بھی سوچا تھا بہت اس نے بھی پوچھا تھا بہت
حال جب خود ہی نہ سمجھے تو سنانا کیسا

تجھ کو پانے کی ہوس تھی سو کسے تھا معلوم
اپنے ہی آپ کو کھو بیٹھیں گے پانا کیسا