عزت اسی کی اہل نظر کی نظر میں ہے
سب کچھ بشر میں ہے جو محبت بشر میں ہے
کیا پوچھتے ہو جوہر تیغ نگاہ ناز
یہ اس سے تیز ہے جو تمہاری کمر میں ہے
قاصد سوال وصل سنیں اور وہ چپ رہیں
کیا کیا نہ شان بے خبری اس خبر میں ہے
کیا جانے کس سوال کا بھیجا ہے یہ جواب
اک تیر اک چھری کف پیغامبر میں ہے
اور ایک بار قلب کو تڑپائے وہ نگاہ
اتنی سکت ابھی تو ہمارے جگر میں ہے
اے دل کسی کی یاد بھی اور اضطراب بھی
اتنا نہیں خیال کہ مہمان گھر میں ہے
گھبرائے کیوں نہ کشمکش نزع سے دلیرؔ
پہلا یہ اتفاق اسے عمر بھر میں ہے
غزل
عزت اسی کی اہل نظر کی نظر میں ہے
سید امیر حسن مارہروی دلیر