عزت انہیں ملی وہی آخر بڑے رہے
جو خاک ہو کے آپ کے در پر پڑے رہے
اے دوست مغتنم ہیں وہ مردان با وقار
عسرت میں بھی جو آن پہ اپنی اڑے رہے
پایاب ہو کے سیل نے ان کے قدم لیے
منجدھار میں جو پاؤں جمائے کھڑے رہے
پڑتی نہیں ہر ایک پہ اس کی نگاہ ناز
ساقی کے آستاں پہ ہزاروں پڑے رہے
اپنوں کی تلخ گوئی کی لذت نہ پوچھیے
بھالے سے عمر بھر رگ جاں میں گڑے رہے
مانند سنگ میل دکھائی ہر اک کو راہ
لیکن خود اپنے پاؤں زمیں میں گڑے رہے
ظالم سے ایک بوسے پہ برسوں رہی ہے ضد
آخر تک اپنی بات پہ ہم بھی اڑے رہے
شاید کہ ملتفت ہو کوئی شہسوار ناز
کس آرزو سے ہم سر منزل کھڑے رہے
فتنے بہت ہیں بت کدہ و خانقاہ میں
اچھے رہے جو دشت جنوں میں پڑے رہے
واصفؔ کا انتظار تھا صحرا میں بعد قیس
کانٹے بھی مدتوں یوں ہی پیاسے پڑے رہے

غزل
عزت انہیں ملی وہی آخر بڑے رہے
واصف دہلوی