اضطراب دل میں آ جا کر دوام آ ہی گیا
زندگی کو ایک حالت پر قیام آ ہی گیا
اتفاقاً اس گلی سے لے بڑھی عمر رواں
میں تو سمجھا تھا کہ اب میرا مقام آ ہی گیا
ہو گئی آوارہ گردی بے گھری کی پردہ دار
کام جتنا ہم کو آتا تھا وہ کام آ ہی گیا
بندگی آموز بزم زندگی بے چارگی
آدمی کو جب غرض اٹکی سلام آ ہی گیا
انتظام روز عشرت اور کر اے نامراد
عید آتی ہی رہی ماہ صیام آ ہی گیا
رند جانے رند کا ایمان جانے شغل رند
پند گو کے منہ تک آنا تھا حرام آ ہی گیا
ہو گیا ترک طلب کا نام عجز حوصلہ
جس سے ہم ڈرتے رہے وہ اتہام آ ہی گیا
اب کہیں کس سے کہ ان سے بات کرنا ہے گناہ
جب کلام آیا زباں پر لا کلام آ ہی گیا
اول اول خوب دوڑی کشتی اہل ہوس
آخر آخر ڈوب مرنے کا مقام آ ہی گیا
رفعت ہستی کو پستی نے دکھایا آسماں
جھونپڑوں تک اونچے محلوں سے سلام آ ہی گیا
آ گیا ہے اے فلک ذروں کو احساس خودی
میں سمجھتا ہوں کہ وقت انتقام آ ہی گیا
وہ مسلسل اب کہاں تابانیٔ روز نشاط
رہ رو مغرور دیکھا وقت شام آ ہی گیا
حشر سے اچھا رہا اک فتنۂ محشر خرام
پھر تمام آتا نہ آتا ناتمام آ ہی گیا
تلخ کام افزائش شیرینی عشرت ہوئی
آتے آتے ہو کے زہر آلود جام آ ہی گیا
بات کیا چھپتی کہ تھا اپنا جدا طرز کلام
نام آیا بھی نہ تھا ناطقؔ کہ نام آ ہی گیا
غزل
اضطراب دل میں آ جا کر دوام آ ہی گیا
ناطق گلاوٹھی