EN हिंदी
اضطراب دل میں آ جا کر دوام آ ہی گیا | شیح شیری
iztirab-e-dil mein aa ja kar dawam aa hi gaya

غزل

اضطراب دل میں آ جا کر دوام آ ہی گیا

ناطق گلاوٹھی

;

اضطراب دل میں آ جا کر دوام آ ہی گیا
زندگی کو ایک حالت پر قیام آ ہی گیا

اتفاقاً اس گلی سے لے بڑھی عمر رواں
میں تو سمجھا تھا کہ اب میرا مقام آ ہی گیا

ہو گئی آوارہ گردی بے گھری کی پردہ دار
کام جتنا ہم کو آتا تھا وہ کام آ ہی گیا

بندگی آموز بزم زندگی بے چارگی
آدمی کو جب غرض اٹکی سلام آ ہی گیا

انتظام روز عشرت اور کر اے نامراد
عید آتی ہی رہی ماہ صیام آ ہی گیا

رند جانے رند کا ایمان جانے شغل رند
پند گو کے منہ تک آنا تھا حرام آ ہی گیا

ہو گیا ترک طلب کا نام عجز حوصلہ
جس سے ہم ڈرتے رہے وہ اتہام آ ہی گیا

اب کہیں کس سے کہ ان سے بات کرنا ہے گناہ
جب کلام آیا زباں پر لا کلام آ ہی گیا

اول اول خوب دوڑی کشتی اہل ہوس
آخر آخر ڈوب مرنے کا مقام آ ہی گیا

رفعت ہستی کو پستی نے دکھایا آسماں
جھونپڑوں تک اونچے محلوں سے سلام آ ہی گیا

آ گیا ہے اے فلک ذروں کو احساس خودی
میں سمجھتا ہوں کہ وقت انتقام آ ہی گیا

وہ مسلسل اب کہاں تابانیٔ روز نشاط
رہ رو مغرور دیکھا وقت شام آ ہی گیا

حشر سے اچھا رہا اک فتنۂ محشر خرام
پھر تمام آتا نہ آتا ناتمام آ ہی گیا

تلخ کام افزائش شیرینی عشرت ہوئی
آتے آتے ہو کے زہر آلود جام آ ہی گیا

بات کیا چھپتی کہ تھا اپنا جدا طرز کلام
نام آیا بھی نہ تھا ناطقؔ کہ نام آ ہی گیا