اظہار عقیدت میں کہاں تک نکل آئے
ہم اہل یقیں وہم و گماں تک نکل آئے
شاداب بہاروں کے تمنائی کہاں ہیں
موسم کے قدم زخم خزاں تک نکل آئے
یہ کیسا الم ہے کہ گریباں ہو سلامت
اور آنکھوں سے خوں بھی رگ جاں تک نکل آئے
کب نکلے گی دیوانوں کی بارات گھروں سے
سینوں میں بغاوت کے نشاں تک نکل آئے
مقتل میں بہتر بھی نہیں نکلے ہیں اب کے
درگاہوں میں سب پیر و جواں تک نکل آئے
اب تو نہ کرو راہ نماؤں کی شکایت
اخباروں میں اب ان کے بیاں تک نکل آئے
اب کون سر دار نظر آئے گا فارغؔ
جب اہل جنوں سود و زیاں تک نکل آئے
غزل
اظہار عقیدت میں کہاں تک نکل آئے
فارغ بخاری