اتنی سی اس جہاں کی حقیقت ہے اور بس
گفتار زیر لب ہے سماعت ہے اور بس
کیوں آشنائے چشم ہو دیدار حسن کا
یہ گریہ آزمائی تو عادت ہے اور بس
اتنے سے جرم پر تو نہ مجھ کو تباہ رکھ
تھوڑی سی مجھ میں تیری شباہت ہے اور بس
اس کو جزا سزا کے مراحل میں دے دیا
جس پاس ایک عمر کی مہلت ہے اور بس
آیا جو دور دشت اچانک ہی سامنے
ایسا لگا کہ تیری اجازت ہے اور بس
ہم نے کہا کہ ختم ہوئے سب معاملات
دل نے کہا کہ کیا ہے؟ قیامت ہے! اور بس
آئینہ دار ہوں کہ ترا پردہ دار ہوں
پیش نگاہ تیری محبت ہے اور بس

غزل
اتنی سی اس جہاں کی حقیقت ہے اور بس
حسین سحر