اتنی مشکل میں کبھی پہلے تو جاں آئی نہ تھی
اے محبت جب مری تجھ سے شناسائی نہ تھی
زندگی میں سینکڑوں غم تھے ترے غم کے سوا
دل میں ویرانے تو تھے پر اتنی تنہائی نہ تھی
رہ گزر تھی حادثے تھے فاصلہ تھا دھوپ تھی
برہنہ پائی تھی لیکن آبلہ پائی نہ تھی
بچ کے طوفاں سے کسی صورت نکل آئے مگر
ہم وہاں ڈوبے جہاں دریا میں گہرائی نہ تھی
اے مسیحا دیکھنے نکلا تھا میں تیرا نظام
ہر طرف تو تھا مگر تیری مسیحائی نہ تھی
اپنے زخموں کی نمائش بے حسوں کے شہر میں
اس دل مضطر کی نادانی تھی دانائی نہ تھی
غزل
اتنی مشکل میں کبھی پہلے تو جاں آئی نہ تھی
نفس انبالوی