اتنے تنہا ہیں کہ اب پھرتے ہیں ہم دھوپوں میں
ساتھ سایا ہو تو کچھ بات کریں رستوں میں
اے بہار اس کو نہ دے سایۂ گل میں آواز
ہے ہوائے چمنی اڑتے ہوئے پتوں میں
تو دکھانی نہیں دیتا تو شکایت کیسی
تیری آواز تو آتی ہے مری سانسوں میں
میرا چہرہ کسی اجڑے ہوئے گھر کی صورت
اور دھواں بجھتے چراغوں کا مری آنکھوں میں
آ دکھاؤں تجھے میں اپنا گلستاں پیارے
کس قدر پھولوں کے چہرے ہیں مرے زخموں میں
کیوں مٹا دی ہے بنا کر مری ہیرے کی لکیر
سنگ ڈھونا ہی جو لکھا تھا مرے ہاتھوں میں
اے پشاور میں مسافر تو نہیں ہوں لیکن
سر جھکائے ہوئے پھرتا ہوں تری گلیوں میں
کب تری آنکھ میں تھی کرب کی یہ لو حشمیؔ
تھی کہاں چوٹ کی آواز تری باتوں میں

غزل
اتنے تنہا ہیں کہ اب پھرتے ہیں ہم دھوپوں میں
جلیل حشمی