اتنے دکھی ہیں ہم کو مسرت بھی غم بنے
امرت ہمارے ہونٹ سے مس ہو تو سم بنے
روئے برنگ ابر فرشتے بھی گوندھ کر
کس دشت اشک و آہ کی مٹی سے ہم بنے
کچھ اور بھی تو شیش محل راستے میں تھے
کیوں ہم فقط نشانۂ سنگ ستم بنے
آنکھوں کے سامنے ہے شکستہ در سکوں
ہم تک رہے ہیں دیر سے تصویر غم بنے
برسے ہیں دشت زیست میں ہم پر وہ سنگ و خشت
یکجا سمٹ کے آئیں تو کوہ الم بنے
لہجے کے بانکپن میں چھپاتے ہیں دل کا سوز
ہم ایسے رکھ رکھاؤ کے فن کار کم بنے
جو داستاں مٹائی زیادہ لکھی گئی
جتنے ہمارے ہاتھ تراشے قلم بنے
زلفیؔ وہ سرزمیں کہ جہاں دفن ہے شکیبؔ
وہ کیوں نہ اہل فن کے لئے محترم بنے

غزل
اتنے دکھی ہیں ہم کو مسرت بھی غم بنے
سیف زلفی