اتنے چپ کیوں ہو ماجرا کیا ہے
آج شاعرؔ تمہیں ہوا کیا ہے
واقعہ یہ ہے تھے اسی قابل
ہم جو رسوا ہوئے برا کیا ہے
حاصل کائنات ہے اس میں
میرے ساغر کو دیکھتا کیا ہے
دل کی باتیں سنو نگاہوں سے
یہ نہ پوچھو کہ مدعا کیا ہے
تیری اک اک ادا نے لوٹ لیا
ہے وفائی ہے کیا وفا کیا ہے
سامنے اپنے آئنہ رکھ لو
یہ نہ دیکھو مجھے ہوا کیا ہے
ذرہ ذرہ جواب دے دے گا
پوچھئے تو ذرا خدا کیا ہے
اب تو شاعرؔ زمانہ ہے دشمن
راہزن کیا ہے رہنما کیا ہے
غزل
اتنے چپ کیوں ہو ماجرا کیا ہے
شاعر فتح پوری