EN हिंदी
اتنا نہ گھوم رات کو پھولوں کی باس میں | شیح شیری
itna na ghum raat ko phulon ki bas mein

غزل

اتنا نہ گھوم رات کو پھولوں کی باس میں

نسیم عباسی

;

اتنا نہ گھوم رات کو پھولوں کی باس میں
سوئے پڑے ہیں چاروں طرف سانپ گھاس میں

ہر سمت اس نے آتشی شیشے لگا دیے
سڑکوں پہ لوگ آئے تھے کالے لباس میں

گردش میں زندگی رہی افواہ کی طرح
عمریں گزار دیں گئیں خوف و ہراس میں

اگلا نصاب نور بصیرت سے پڑھ لیا
آنکھیں تو چھوڑ آئے تھے پہلی کلاس میں

یہ اور بات زیر زمیں دفن ہو گئیں
ورنہ جڑوں کا خون ہے پھل کی مٹھاس میں

اب بار بار اس کی طرف دیکھتے ہو کیا
اب صرف میری تشنہ لبی ہے گلاس میں

منظر کسی طلسم کی زد میں نہ ہو نسیمؔ
سرسوں کا رنگ دوڑ رہا ہے کپاس میں