EN हिंदी
اتنا ہی بہت ہے کہ یہ بارود ہے مجھ میں | شیح شیری
itna hi bahut hai ki ye barud hai mujh mein

غزل

اتنا ہی بہت ہے کہ یہ بارود ہے مجھ میں

عاطف کمال رانا

;

اتنا ہی بہت ہے کہ یہ بارود ہے مجھ میں
انگارہ نما شخص بھی موجود ہے مجھ میں

پوروں سے نکل آئی ہے اک برف کی ٹہنی
اے دوست یہی آتش نمرود ہے مجھ میں

ہر گیند کے پیچھے کوئی آتا ہے ہمیشہ
یہ کون سے بچے کی اچھل کود ہے مجھ میں

گالی نہیں اچھی تو تمہیں پیش کروں کیا
اک اور بھی جملہ سخن آلود ہے مجھ میں

میں دیکھتا رہتا ہوں کہ وہ کھڑکی ہے خالی
تا حال یہی رونق بے سود ہے مجھ میں

یوں ہی تو نہیں لوگ گزرتے مرے دل سے
لگتا ہے کوئی منزل مقصود ہے مجھ میں