اتنا ہی بہت ہے کہ یہ بارود ہے مجھ میں
انگارہ نما شخص بھی موجود ہے مجھ میں
پوروں سے نکل آئی ہے اک برف کی ٹہنی
اے دوست یہی آتش نمرود ہے مجھ میں
ہر گیند کے پیچھے کوئی آتا ہے ہمیشہ
یہ کون سے بچے کی اچھل کود ہے مجھ میں
گالی نہیں اچھی تو تمہیں پیش کروں کیا
اک اور بھی جملہ سخن آلود ہے مجھ میں
میں دیکھتا رہتا ہوں کہ وہ کھڑکی ہے خالی
تا حال یہی رونق بے سود ہے مجھ میں
یوں ہی تو نہیں لوگ گزرتے مرے دل سے
لگتا ہے کوئی منزل مقصود ہے مجھ میں
غزل
اتنا ہی بہت ہے کہ یہ بارود ہے مجھ میں
عاطف کمال رانا