اتنا بھی نہ ساقی ہوش رہا پی کر یہ ہمیں مے خانہ تھا
گردش میں ہماری قسمت تھی چکر میں ترا پیمانہ تھا
محروم تھا سوز الفت سے جل جانے سے بیگانہ تھا
فانوس کے اندر شمع رہی باہر باہر پروانہ تھا
مے خانہ سے ہم رخصت جو ہوئے تو اور ہی کچھ مے خانہ تھا
اک کونے میں خم رکھا تھا اک گوشے میں پیمانہ تھا
ہوں رنگ محبت سے واقف ہوں سوز محبت سے واقف
گلزار میں بلبل میں تھا کبھی محفل میں کبھی پروانہ تھا
دامن میں جو چن کر رکھتا تھا سب جیب و گریباں کے ٹکڑے
ہشیار وہی دیوانہ تھا دیوانہ وہ کب دیوانہ تھا
غزل
اتنا بھی نہ ساقی ہوش رہا پی کر یہ ہمیں مے خانہ تھا
بسمل الہ آبادی