اتنا اچھا نہ اگر ہوتا تو ہم سا ہوتا
ہم نے دیکھا ہی نہ ہوتا تجھے چاہا ہوتا
تو مرے پاس بھی ہوتا تو بھلا کیا ہوتا
میرا ہو کر بھی اگر اور کسی کا ہوتا
اب تو کچھ کچھ یہ سبھی سب ہی میں مل جاتے ہیں
کوئی تو ہوتا کہ میں ہوتا تو اچھا ہوتا
ننھے بچوں کی طرح سوتے ہیں ہنسنے والو
تم نے ایسے میں اگر آپ کو دیکھا ہوتا
اب تو جو کچھ ہوں یہی کچھ ہوں برا ہوں کہ بھلا
ایسا کیا کہئے کہ یوں ہوتا تو کیسا ہوتا
جب درختوں میں ہوا لوریاں گاتی گزری
تم نے ایسے میں کسی اور کو دیکھا ہوتا
یہ اندھیرا کہ رنگے جاتا ہے ٹہنی ٹہنی
تیرے چہرے کی جھلک دیکھ کے اترا ہوتا
ایک دنیا نے تجھے دیکھا ہے لیکن میں نے
جیسے دیکھا ہے تجھے ویسے نہ دیکھا ہوتا
چاند یوں شاخوں میں الجھا ہی نہ رہتا کل رات
اشکؔ وہ شخص اگر پاس ہی بیٹھا ہوتا
غزل
اتنا اچھا نہ اگر ہوتا تو ہم سا ہوتا
بمل کرشن اشک