EN हिंदी
استادہ ہے جب سامنے دیوار کہوں کیا | شیح شیری
istada hai jab samne diwar kahun kya

غزل

استادہ ہے جب سامنے دیوار کہوں کیا

اعجاز گل

;

استادہ ہے جب سامنے دیوار کہوں کیا
حاصل بھی نہیں روزن درکار کہوں کیا

لگتا تو ہے کچھ دید کو نادید کے پیچھے
کھلتا نہیں منظر کوئی اس پار کہوں کیا

ہوں تنگ ذرا جیب سے اے حسرت اشیا
شامل تو ہے فہرست میں بازار کہوں کیا

جس بات کے انکار کا حد درجہ گماں ہے
وہ بات یقیں کے لئے سو بار کہوں کیا

میں ان کے جوابات سے اور اہل زمانہ
ہیں میرے سوالات سے بیزار کہوں کیا

جس بات پہ تھی بحث ہوئی بحث سے خارج
اب رہ گئی آپس میں ہے تکرار کہوں کیا

ہمسائے کی ہمسائے سے پہچان نہیں ہے
پیوست ہے دیوار میں دیوار کہوں کیا

غافل نہیں ایسا بھی میں اب اپنی رسد سے
اس دل میں طلب کا ہے جو انبار کہوں کیا

گل زار سا کھل اٹھتا ہے خوشبوئے سخن سے
جادو ہے وہ اس کا دم گفتار کہوں کیا

ہے رنگ بدن کا لغت رنگ میں ناپید
لا ثانی ہے قامت میں قد یار کہوں کیا