EN हिंदी
اسی صورت سے تسکین دل ناشاد کرتے ہیں | شیح شیری
isi surat se taskin-e-dil-e-nashad karte hain

غزل

اسی صورت سے تسکین دل ناشاد کرتے ہیں

محمد عثمان عارف

;

اسی صورت سے تسکین دل ناشاد کرتے ہیں
ابھی تک یاد آتے ہو ابھی تک یاد کرتے ہیں

تباہی پر ہماری شکوۂ صیاد کرتے ہیں
چمن میں ہیں کچھ ایسے بھی جو ہم کو یاد کرتے ہیں

محبت نام ہے اس کا تعلق نام ہے اس کا
نہ ہم آزاد ہوتے ہیں نہ وہ آزاد کرتے ہیں

وفا کا نام جب اٹھ جائے گا بے درد دنیا سے
وہ روئیں گے بہت ہم کو جو اب برباد کرتے ہیں

زمانہ سے نرالا ہے کرم صیاد و گلچیں کا
جلا کر آشیاں کہتے ہیں اب آزاد کرتے ہیں

قفس ہی اب نشیمن ہے قفس ہی صحن‌ گلشن ہے
اسیروں سے کہو کیوں منت صیاد کرتے ہیں

سمجھ رکھا ہے بازیچہ انہوں نے دل کی دنیا کو
کبھی آباد کرتے ہیں کبھی برباد کرتے ہیں

کبھی اپنا سمجھ کر جن کو سینے سے لگایا تھا
عجب عالم ہے عارفؔ وہ ہمیں برباد کرتے ہیں