اسی سبب سے تو ہم لوگ پیش و پس میں ہیں
اسی سے بیر بھی ہے اور اسی کے بس میں ہیں
قفس میں تھے تو گماں تھا کھلی فضاؤں کا
کھلی فضا میں یہ احساس ہم قفس میں ہیں
یہ اور بات کہ ہم فائدہ اٹھا نہ سکیں
کچھ ایسے لوگ ہماری بھی دسترس میں ہیں
ہر ایک شہر کی کایا پلٹ گئی لیکن
ہر ایک شہر میں باقی پرانی رسمیں ہیں
حقیقتوں سے نگاہیں ملائیے اقبالؔ
سنا ہے آپ تو چالیسویں برس میں ہیں
غزل
اسی سبب سے تو ہم لوگ پیش و پس میں ہیں
اقبال عمر