اسی میں خوش ہوں مرا دکھ کوئی تو سہتا ہے
چلی چلوں گی جہاں تک یہ ساتھ رہتا ہے
زمین دل یوں ہی شاداب تو نہیں اے دوست
قریب میں کوئی دریا ضرور بہتا ہے
گھنے درختوں کے گرنے پہ ماسوائے ہوا
عذاب در بدری اور کون سہتا ہے
نہ جانے کون سا فقرہ کہاں رقم ہو جائے
دلوں کا حال بھی اب کون کس سے کہتا ہے
مقام دل کہیں آبادیوں سے ہے باہر
اور اس مکان میں جیسے کہ کوئی رہتا ہے
مرے بدن کو نمی کھا گئی ہے اشکوں کی
بھری بہار میں کیسا مکان ڈہتا ہے
غزل
اسی میں خوش ہوں مرا دکھ کوئی تو سہتا ہے
پروین شاکر