اسی خیال سے دل میں مرے اجالا ہے
دماغ وقت کی دھڑکن کو سننے والا ہے
تڑپ طلب ہے مری تشنہ لب سمندر ہوں
حباب کہتے ہیں جس کو زباں پہ چھالا ہے
تمام خواب خیالات بن کے ٹوٹے ہیں
یہ دور دیکھیے اب کیا دکھانے والا ہے
میں اپنے حال سے گھبرا کے مر گیا ہوتا
مجھے تو واقعی بیتے دنوں نے پالا ہے
پلٹ کے شام کو واپس پہنچ بھی پاؤں گا
اس ایک سوچ نے گھر سے قدم نکالا ہے
میں گرد بن کے اڑا تھا تلاش میں اپنی
ترے خیال نے لیکن مجھے سنبھالا ہے
شفیقؔ کیسے کوئی کیفیت بیاں ہوگی
ہر ایک لفظ مری سوچ کا نوالا ہے
غزل
اسی خیال سے دل میں مرے اجالا ہے
شفیق عباس