اسی دنیا کے اسی دور کے ہیں
ہم تو دلی میں بھی بجنور کے ہیں
آپ انعام کسی اور کو دیں
ہم نمک خوار کسی اور کے ہیں
سرسری طور سے مت لو ہم کو
ہم ذرا فکر ذرا غور کے ہیں
کچھ طریقے بھی پرانے ہیں مرے
کچھ مسائل بھی نئے دور کے ہیں
کوئی امید نہ رکھنا ہم سے
اب تو ہم یوں بھی کسی اور کے ہیں
غزل
اسی دنیا کے اسی دور کے ہیں
شکیل جمالی